حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران/حجۃ الاسلام سید امیر مہدی امین نے تہران کی جامع مسجد غدیر میں حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 10 روایتیں ہیں جن میں امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت صغری اور غیبت کبری کی جانب اشارہ ہوا ہے۔غیبت صغری کا دورانیہ تقریباً 70 سال تک جاری رہا،اس دوران امام زمان علیہ السلام نے اپنے چار خاص نائبین کے ذریعے لوگوں سے رابطہ قائم کیا اور غیبتِ صغری کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد،امام علیہ السلام کی غیبتِ کبری شروع ہوئی جو کہ آج تک جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیبت کے دوران شیعوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری کہ جس کی جانب بہت سی روایات میں اشارہ ہوا ہے وہ فرج کا انتظار کرنا ہے۔پیغمبر خدا(ص)نے فرمایا کہ میری امت کے بہترین اعمال میں سے ایک فرج کا انتظار ہے۔یہاں پر بحث یہ ہے کہ فرج کے انتظار سے کیا مراد ہے اور کیا انسان کا صرف زبانی حد تک انتظار کرنا کافی ہے؟مذکورہ سوال کا جواب ہمیں امام صادق(ع)کی ایک روایت میں ملتا ہے کہ فرمایا:جو شخص حضرت مہدی(عج)کے ساتھیوں میں سے قرار پانا چاہتا ہو تو اسے انتظار کرنا چاہئے اور انتظار کے دوران اس کے اعمال اور طرز عمل میں تقویٰ اور حسن اخلاق نظر آنا چاہئے،لہذا اس روایت کے مطابق فرج کا انتظار صرف زبانی انتظار مراد نہیں ہے اور انتظار کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مقدسات کی حفاظت کریں اور اپنے آپ کو اچھے اخلاق سے آراستہ کریں۔
استاد حوزہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فرج کے انتظار کا مطلب،امام زمانہ علیہ السلام کے استقبال کے لئے مستقل اور عملی تیاری ہے،کہا کہ جس طرح کسی مہمان کے آنے کا انتظار کرنے والا آدمی تیاری کرتا ہے، فرج کے انتظار کے لئے بھی تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔روایات میں انتظار کے بارے میں مختلف تاویلات اور انتظار کی مشقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور منتظر کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے خون میں ڈوبا ہوا ہو۔فرج کا انتظار جہاد کی ایک قسم ہے۔
حجۃ الاسلام امین نے مزید کہا کہ امام صادق(ع)نے فرمایا:امام زمانہ(ع)کا منتظر اگر دنیا سے انتقال کر جائے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو امام زمانہ(ع)کے خیمے میں ہے،بلکہ اس شخص کی طرح ہے جس نے پیغمبر اسلام(ص)کے ساتھ مل کر دشمنوں کے خلاف جنگ کی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام زمانہ(عج)کے حقیقی منتظر کو عصر غیبت میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اس طرح عمل کرنا چاہئے جو امام علیہ السلام کا پسندیدہ ہو۔منتظر اپنی انفرادی زندگی میں تقوی اختیار اور گناہوں سے اجتناب کرتا ہے اور اہل نماز،روزہ،عبادت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔حقیقی منتظر کی سماجی میدان میں بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔امام زمان علیہ السلام کے حقیقی منتظرین کی سماجی ذمہ داریوں میں حق الناس،قانون اور عدالت کی رعایت شامل ہے۔بدقسمتی سے آج ان امور کی رعایت بالخصوص سائبر اسپیس میں کم ہو گئی ہے اور اس فضاء میں لوگ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسانی سے جھوٹی چیزوں کو فروغ دینے اور الزام تراشیوں میں مصروف عمل ہیں۔
استاد حوزه نے حقیقی منتظرین کی ثقافتی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ثقافتی میدان میں معاشرے پر حاکم پالیسیاں جو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی منتظر ہیں ان میں خدا اور معنویت کا رنگ اور بو ہونا چاہئے۔
آخر میں،حجۃ الاسلام امین نے کہا کہ بدقسمتی سے،کچھ ثقافتی کاموں کے ثقافتی اثرات اور نتائج متضاد ہوتے ہیں اور کسی بھی وجہ سے ان کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔معاشرے کے ثقافتی رہنماؤں کو اس سے زیادہ ہوشیاری سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ایک ایسی دنیا میں،جہاں انسانی حقوق جیسے اقدار کو نظرانداز اور انسانی حقوق کو آسانی سے پامال کیا جاتا ہو وہاں پر اسلامی معاشرے کو ان مسائل میں الجھ کر اپنی مذہبی اور معنوی اقدار کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔